Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

پیارےبچو! اپنے گھروں کو جنات سے بچائیں

ماہنامہ عبقری - دسمبر 2014ء

اس بدبو در شخص نے عجیب و غریب منتر پڑھنا شروع کردئیے اور آخر کار عبداللہ کو ایک موٹا سا تعویز دے دیا کہ اس کے گلے میں ڈل دو ٹھیک ہوجائے گا۔ پانچ دن کچھ بہتر گزرے ہوں گے مگر چھٹے دن اس کی طبیعت پھر سے خراب ہوئی‘
معظم یعقوب‘ لاہور

وہ مجھے ڈرا رہا ہے‘وہ بہت زیادہ ڈرائونا ہے…ام عبداللہ نے فوری اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا اور خود بھی ہلکا ہلکا ڈرنے لگ گئیں…اسی اثناء میں ابو عبداللہ بھی آگئے۔نیند کی وجہ سے انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی‘عبداللہ ابھی تک رورہا تھا‘کچھ لمحات بعدام عبداللہ نے اسے الگ کیا اورکہا کہ آنکھیں کھول لو اب وہ نہیں  ہے۔ اس نے جیسے ہی آنکھیں کھولیں تو پھر روتے ہوئے بند کرلیں‘اور زور زور سے کہنے لگا کہ ابو جان وہ بالکل آپ کے ساتھ بیٹھا ہے اب ابو عبداللہ بھی سنجیدہ ہوگئے کہ مسئلہ واقعی زیادہ ہے…!!
ام عبداللہ اپنے بچے کی حالت دیکھ کر جذباتی ہورہی تھیں۔غصے میں کہنے لگیں ادھر جو بھی ہے دفعہ ہوجائے‘چلا جائے‘میں اسے ماردوں گی اگر میر ے عبداللہ کو ذرا سا بھی کچھ ہوا تو!!اب عبداللہ بالکل آنکھیں نہیں کھول رہا تھا‘اسے کافی پیار سے سارے گھر والے سمجھارہے تھے۔ آخر تھوڑی دیر بعد وہ اسی حالت میں سو گیا۔ عبداللہ کے والد ین ساری رات جاگتے رہے‘مجھے نہیں پتہ کچھ کریں عبداللہ کا۔ اسے کچھ ہوگیا تو میںبھی زندہ نہیں رہوں گی۔ ام عبداللہ رو رو کرہلکان ہورہیں تھیں۔ اچھا! خاموش ہوجائو، سب ٹھیک ہوجائے گا۔ صبح ڈاکٹر کے پاس دوبارہ جاتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے اسے کوئی خواب آتا ہے اوروہ جسے خواب میں دیکھتا ہے اس کے ذہن میں اٹھنے کے بعد وہی موجود ہوتا ہے‘ لگتا ہے کہ یہ کوئی ڈرائونے کارٹون دیکھتا ہے یا کوئی ایسی چیز ٹی وی پر دیکھتا ہے جو رات کو خواب میں ڈرتا ہے، ابو عبداللہ بولے۔
نہیں جانا کسی ڈاکٹر کے پاس میں نے‘ ماہر ڈاکٹر بھی اس کا مسئلہ نہیں پتہ چلا سکتا اور ڈاکٹر کیا پتہ چلائیں۔میں نہیںجانتی میں صبح ساتھ والی ہمسائی کے گھر جائوں گی اور اسے سارامسئلہ بتائوں گی…ام عبداللہ بولیں…!!
صبح ہوتے ہی ام عبداللہ ہمسائیوں کے گھر گئی، وہاں انہوں نے ہمسائی کو سارا ماجرا کہہ سنایا۔ اس ہمسائی نے فوری کہا کہ تم پہلے آجاتی تو یہ مسئلہ بڑی آسانی سے حل ہوسکتا تھا۔ اچھی بات ہے کہ اب بھی تم آگئی ہو۔ تمہیں میں لے کر جاتی ہوں، ساتھ والے محلے میں ایک بابا جی بیٹھتے ہیں وہ اس طرح کے سارے مسئلے حل کردیتے ہیں۔ تم کل عبداللہ کے ساتھ آجانا، سارے مسئلے کا حل نکل آئے گا، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے!!عبداللہ سکول سے گھر آیا تو ام عبداللہ نے پکاارادہ بنالیا تھا کہ آج اس سے ضرور پوچھوں گی کہ تمہیں کون نظر آتا ہے۔ عبداللہ بیٹا! کون ہے جو تمہیں رات کو نظر آتا ہے اس کی شکل کس طرح ہے اور وہ کیا کہتا ہے؟ امی جان! اس کی شکل بہت خوفناک ہے‘ اس کا پورا جسم کالا سیاہ ہے‘ اور…اور…یہاں تک کہہ کر عبداللہ رک گیا… اور ادھر اُدھر دیکھنے لگا…بولو بیٹا بولو! وہ تمہیںکیا کہتا ہے…؟؟
وہ مجھے چہرے پر مارتا ہے‘مجھے درد ہوتا ہے‘ اس لئے میں چھپ جاتا ہوں‘ پھر وہ ہنسنے لگ جاتا ہے‘عبداللہ کھانا کھاتے ہوئے بول رہا تھا‘ اچانک عبداللہ سامنے والے دروازے کو دیکھنے لگا‘ اس نے اپنے سامنے پڑا گلاس اٹھایا اور زور سے دروازے پر دے مارا اور تیزی سے دروازے کی طرف بھاگا‘ام عبداللہ بھی اس کے پیچھے اسے پکڑنے بھاگیں… مگر وہ اتنی تیزی سے دروازہ کھول کے بھاگا کہ وہ اسے پکڑ نہ سکیں۔وہ باہر کا دروازہ کھولنے کے بعد گلی میں غائب ہوچکا تھا۔ ام عبداللہ حواس باختہ ہوکر گیٹ کی طرف بھاگیں‘ مگر یہ کیا‘دروازہ باہر سے بندتھا‘ وہ پاگلوں کی طرح دروازے کو پیٹ رہی تھیں اور اسے آوازیں دے رہی تھیں۔ اسی اثناء میں دروازہ کھلا تو ابو عبداللہ سامنے کھڑے تھے۔ انہوںنے ام عبداللہ کوایسی حالت میں دیکھا۔ وہ چلارہی تھیں میرا عبداللہ! میرا عبداللہ اور باہر کی طرف بھاگ رہی تھیں‘ ابو عبداللہ انہیںسنبھال رہے تھے۔ عبداللہ بھاگ گیا ہے باہر…جب ام عبداللہ نے یہ کہا تو وہ بھی الٹے پائوں باہر بھاگے…!بالکل ساتھ والے پارک میں عبداللہ بڑے پرسکون انداز میں ایک بنچ پر بیٹھا ہوا تھا۔ ام عبداللہ نے جاتے ہی اسے سینے سے لگا گیا۔ عبداللہ کچھ ہوا تو نہیں تمہیں۔ نہیں امی جان کچھ نہیں ہوا۔ پھر باہر کیوں بھاگے تھے‘اب عبداللہ کے ذہن میں آیا کہ وہ توگھر میں تھا اور اب باہر بیٹھا ہوا ہے۔ وہ اپنی امی کو گھورنے لگا اور غور غور سے دیکھنے لگا ہاں امی جان! وہ کھانے کے وقت دوبارہ آگیا تھا میں نے اسے گلاس مارا تھا پھر اس نے میرا سامان پکڑ لیا اور باہر بھاگا میں بھی اس سے سامان لینے کیلئے اس کے پیچھے بھاگا‘ میرا سامان کدھر ہے؟ چلو گھر چلتے ہیں‘ سب کچھ ادھر ہی پڑا ہوا ہے‘ ابو عبداللہ بولے۔اگلے دن ام عبداللہ اسے لے کر ہمسائی کے ساتھ دوسرے محلے میں بابا جی کے پاس چلی گئیں۔ وہ بابا جی کے کمرے میں داخل ہوتی ہی ٹھٹھک گئیں‘ایک آدمی جس کے چہرے پر داڑھی نہ تھی سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ ایک بہت لمبی سی تسبیح ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی۔
اس بدبو در شخص نے عجیب و غریب منتر پڑھنا شروع کردئیے اور آخر کار عبداللہ کو ایک موٹا سا تعویز دے دیا کہ اس کے گلے میں ڈال دو ٹھیک ہوجائے گا۔ پانچ دن کچھ بہتر گزرے ہوں گے مگر چھٹے دن اس کی طبیعت پھر سے خراب ہوئی‘ اب اس کی طبیعت ایسی خراب ہوگئی کہ چڑ چڑاپن اور بد تمیزی جیسی عادات بہت تیزی سے نمایاں ہوتی جارہی تھیں اور رات کو اسی طرح اچانک ڈرنا شروع ہوجاتا اب تو اس کے چہرے پر نشانات بھی پڑنا شروع ہوگئے تھے‘جیسے اسے کسی نے مارا ہو۔ ایک دن تو ام عبداللہ کو شدید جھٹکا لگا کہ جب عبداللہ نے کہا کہ امی! تمہیں پتہ نہیں کہ میرے کھانے کا وقت ہوگیا ہے اور کھانا تیار نہیں ہوا‘ اس نے آج تک اپنی امی کو ’’ تمہیں ‘‘ کہہ کر مخاطب نہیں کیا تھا‘ یہ لفظ سننے کے بعد تو گویا ایک لاوا تھا جو ام عبداللہ کے سینے میں تھا… وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں۔ام عبداللہ اندر سے ٹوٹ چکی تھیں‘ وہ دن بدن کمزور ہوتی جارہی تھیں‘یہی حالت ابو عبداللہ کی بھی تھی… اب عبداللہ نے سکول جانا بھی چھوڑ دیا تھا…
ایک دن ام عبداللہ سے کسی خاتون نے آکرپوچھا کہ کیا آپ نے ابھی اللہ سے دعا کی ہے اور خود صبح و شام اذکار کرتی ہیں؟ یہ سوال ایسا تھا جس نے ام عبداللہ کو اندر سے جھنجھوڑ دیا…!!
اس خاتون نے جب پوچھا کہ گھر میں عبادات کا معمول کیا ہے… تو ام عبداللہ گویا ہوئیں جس کا دل کرتا ہے نمازیں پڑھ لیتا ہے … ٹی وی پر ڈرامے ہر وقت چلتے رہتے ہیں… قرآن سے تو بہت دوری ہے۔ یہ سنتے ہی اس خاتون نے ام عبداللہ کوکہا کہ سارا قصور آپ لوگوں کا ہے۔ کاش ! آپ شروع دن سے ہی رب کریم کے سامنے جھک جاتے‘ اللہ سے دعا کرتے اور نبی کریم ﷺنے جو مسنون اذکار بتائے ہیں وہ کرتے تو آج یہ ننھا سا… پیارا سا عبداللہ اس حالت میں نہ ہوتا… ام عبداللہ انتہائی محو ہوکر اس کی باتیں سن رہی تھیں۔ شام کو جب سارے سو چکے تو وہ ابو عبداللہ کے پاس گئیں اور انہیں خاتون والی ساری باتیں بتائیں۔ ابو عبداللہ جو کافی دنوں سے اپنے آپ پر ضبط کئے بیٹھے تھے… بچوں کی طرح روپڑے… کافی دیر تک رونے کے بعد وہ نارمل ہوئے اور کھڑے ہوگئے…!!
میں جارہا ہوں…وہ بولے… مگر کہاں، اس وقت پچھلی رات کو آپ کہاں جائیں گے… میں آج اس ذات کے سامنے جارہا ہوں کہ جس نے مجھے عبداللہ دیا… اور پھر عبداللہ کو آزمائش میں بھی ڈالا شاید میں اپنی دنیا میں اس قدر مگن تھا کہ میں اپنے رب کو بھی بھول چکا تھا کہ اس کے علاوہ دنیا کی کوئی طاقت میرے بچے کو صحت نہیں دے سکتی!!کمرے میں دو مصلے بچھ چکے تھے نیندان کی آنکھوں سے ختم ہوچکی تھی‘ ٹھنڈے پانی سے وضو کرکے وہ دونوں رب کے سامنے کھڑے ہوچکے تھے‘ التجائیں شروع ہوچکی تھیں‘ غموںکے بادل چھٹ رہے تھے‘ آنکھوں سے آنسوئوں کا سمندر جاری تھا‘ برائیاں آنسوئوں کی صورت میں ہمیشہ کیلئے زمین میں دفن ہوتی جارہی تھی‘ اتنی دیر میں فجر کی اذان ہوئی‘ دونوں نے اپنی دعا کیلئے اٹھے ہاتھوں کو بہت بڑی دولت کے ساتھ بھرا ہوا پایا‘ ابو عبداللہ آج کتنے عرصے بعد مسجد کیلئے روانہ ہورہے تھے ادھر ام عبداللہ نے بھی باقی بچوں کو اٹھایا نماز پڑھی اور کچھ دعائیں عبداللہ کے سرہانے بیٹھ کر پڑھیں قرآن کی تلاوت اب ہر فجر کے بعد معمول بن چکا تھا‘ کچھ ہی عرصے بعد عبداللہ اب زندگی کے ایک نئے دور میں قدم رکھ رہا تھا‘ رب کے ساتھ والدین کے تعلق اور دعائوں نے پورے گھر میں ایک برکت والا ماحول پیدا کردیا تھا!کچھ ماہ بعد اس کی طبیعت مزید بہتر ہوگئی تھی اور بالآخر ایک آزمائش جو صرف عبداللہ اوراس کے تمام گھر والوں کیلئے ہی نہیں بلکہ ان کی آنے والی پوری نسل کیلئے باعث رحمت بن چکی تھی اور گناہوں میں لتھڑا پریشانیوں میں گھرا یہ خاندان عظیم راستوں پر گامزن ہوچکا تھا۔

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 773 reviews.